Zindagy ky 20 Azeem Sabaq / زندگی کے 20 عظیم سبق

  • Sale
  • Rs.585.00
  • Regular price Rs.600.00


زندگی کے 20 عظیم سبق

Zindagy ky 20 Azeem Sabaq |زندگی کے 20 عظیم سبق

:تعارف

Zindagy ky 20 Azeem Sabaq |زندگی کے 20 عظیم سبق

اس کتاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اچھا کیا ہے زندگی میں اور لوگوں میں، بالخصوص تم میں۔ یہ کتاب اُن داخلی وسائل کے بارے میں ہے،۔جو تمہارے پاس ہیں تو سہی لیکن ان کو تم استعمال نہیں کر پا رہے ہو۔ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد تمہاری چھپی اور سوئی ہوئی صلاحیتوں کو عیاں کرکے ۔اور جگا کے تمہیں بہترین فرد بنانا ہے ۔ جو کہ تم بن سکتے ہو ۔ تاکہ تم زندگی سے مکمل طور پر لطف اندوز ہو سکو۔ مَیں نے یہ کتاب چار وجوہات سے لکھی ہے:۔

 اس لیے کہ ہم کبھی اتنے چھو ٹے یا اتنے بڑ ے نہیں ہوتے کہ زندگی کے عظیم ترین سبق سیکھ نہ سکیں۔

:عملی زندگی کے تجربات کی روشنی میں   

دراصل مَیں نے یہ کتاب والدین کے لیے لکھی تھی۔ تاکہ وہ اسے اپنے بلوغت کے ابتدائی مرحلے میں داخل ہونے والے بچوں کو دیں۔ وہ بچے جو ہائی سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کتاب ان بچوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ جو ابھی بیس سال سے زیادہ لیکن تیس سال سے کم ہیں۔ بلاشبہ والدین نے یہ کتاب بچوں کے لیے خریدی۔ لیکن انہوں نے اسے انہیں دینے سے پہلے خود بھی پڑھا۔ تب انہوں نے مجھے خط لکھنے شروع کیے،۔جن میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے خیال میں اس کتاب کو قارئین کے وسیع تر حلقے میں پہنچنا چاہیے۔

ان کا خیال تھا کہ میرا پیغام ہمارے بچوں کی تو ضرور مدد کرے گا ۔تاہم ’’20 اسباق‘‘ آفاقی کشش کے حامل اور اتنے اہم ہیں ۔کہ انہیں ہر عمر کے لوگوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔ گو کہ مَیں دل سے یہی چاہتا تھا۔ کہ میرا پیغام بچوں اور نوجوانوں تک پہنچے۔ تاہم اپنی عملی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مَیں نے دیکھا کہ انہوں نے درست لکھا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا خاکہ جن بالغ افراد نے پڑھا ہے، انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ارے ، یہ تو ہمارے لیے بھی ہے!‘‘اس لیے کہ سکولوں میں یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ ’’زندگی کیسے عمل کرتی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’کون سی چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔‘‘

:قابلِ قدر ہنر

ہمارے سکول ایک بہت بڑی خدمت انجام دیتے ہیں۔ پہلے درجے سے لے کر گریجویٹ سطح تک کے تعلیمی اداروں میں ایسے کورس پڑھائے جاتے ہیں جو طلباء کے علم میں اضافہ کرتے ہیں اور انہیں بہت سے قابلِ قدر ہنر سکھاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود نصاب میں ایک خامی، ایک کمی ہوتی ہے۔ وہ خامی، وہ کمی یہ ہے کہ ہم اپنے طلبا کو زندگی کے بارے میں کچھ نہیں پڑھاتے۔ ہم انہیں یہ نہیں پڑھاتے کہ زندگی کیسے عمل کرتی ہے۔ ہم انہیں یہ بھی نہیں پڑھاتے کہ کون سی چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں روایتی تعلیمی اداروں کے علاوہ ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں ہمیں اس مقصد کے لیے درست ’’اوزار‘‘ مہیا کیے جائیں۔ ہمیں تعلقات بنانے کے لیے ضروری رویوں اور مہارتوں کو سیکھنے کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ذاتی اہداف کا تعین کرنے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی قدرو قیمت سے لطف اندوز ہونے کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ مَیں نے خلا کو پُر کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے  بات کو سمجھیں جو کہ اہم ہے۔ کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اور ہمارے بچے یہ سمجھیں کہ اچھا کردار کیا ہوتا ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے یہ سمجھیں کہ کامیاب زندگی کے معنی کیا ہیں۔ اس لیے کہ ہم میں سے بیش تر کو یہ جاننے کے لیے مدد کی ضرورت ہے کہ ہم کتنے اچھے بن سکتے ہیں۔

:عزتِ نفس

چند سال پہلے کیلی فورنیا میں عزتِ نفس کے موضوع پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں ایک ماہرِ نفسیات نے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ جب کوئی شخص اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو ایک لاکھ سے زیادہ مرتبہ اس کی تذلیل کی جا چکی ہوتی ہے۔ مجھے نہیں علم کہ اُسے اِس تعداد کا علم کیسے ہوا تھا تاہم اس کی بات حیرت انگیز نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ ہماری بے عزتی بہت زیادہ کی جاتی ہے۔ اس کا آغاز ابتدائی عمر ہی سے ہو جاتا ہے۔

ہماری بے عزتی بے شمار لوگ کرتے ہیں اور یہ سلسلہ بلوغت تک جاری رہتا ہے۔
میر امقصد یہ تجزیہ کرنا نہیں ہے کہ ایسا ’’کیوں‘‘ ہوتا ہے۔ میرا مقصد فقط اس بات کی نشان دہی کرنا ہے کہ بدقسمتی سے یہ زندگی کی ایک سچائی ہے۔ مَیں نے یہ کتاب اس لیے لکھی ہے کہ میرے خیال میں انسانیت کے دوسرے رُخ پر توجہ دینے کے لیے ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔

:یقین

مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دنیا میں زیادہ لوگ قانون کی پابندی کرنے والے، محبت کرنے والے اور دوسروں کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ہے یوں کہ وہ اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ اچھا ہونا خبر نہیں ہوتی۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم میں سے بیش تر لوگ اپنی قدروقیمت سے آگاہ نہیں ہوتے، اور خود کو ارزاں داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ ہم میں اچھی خصوصیات ہوتی ہیں لیکن ہم ان سے آگاہ نہیں ہوتے، ہم میں داخلی سر چشمے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں دریافت نہیں کرتے، اور ہمیں مواقع دست یاب ہوتے ہیں لیکن ہم کبھی ان کا خوا ب تک نہیں دیکھتے۔
مجھے امید ہے یہ کتاب منفی باتوں پر زیادہ توجہ دینے والی دنیا میں چند مثبت باتیں لائے گی۔

زندگی میں اچھائی ڈھونڈنا ہماری سب سے بڑی خوشی بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ پرانی سچائیاں کبھی فرسودہ وبے کار نہیں ہوتیں …… نئی نسل کے لیے بھی نہیں چند سال پہلے کی بات ہے۔لہازہ مَیں نے کالج کے طلبا کے ایک گروپ سے ’’کامیابی کے حقیقی معانی‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ مَیں نے اپنی تقریر کے آغاز میں چند ایسے پیغامات کی نشان دہی کی جن کی ’’بمباری‘‘ ہم پر مستقلاً ہوتی رہتی ہے۔ مَیں انہیں آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ میرا پیغام بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ مَیں نے انہیں یہ بتانے سے شروعات کی کہ ’’میرے پاس کیا نہیں ہے۔‘

:(Magic Formula)

‘ مَیں نے انہیں بتایا کہ میرے پا س کامیابی حاصل کرنے کا کوئی ’’راز‘‘ نہیں ہے، نہ ہی کامل مسرت کے حصول کا کوئی ’’جادوئی کلیہ‘‘ (Magic Formula) ہے، نہ ہی اس دنیا کو جنت بنانے کی ’’حیران کن نئی تیکنیک‘‘ ہے، امیر اور طاقت ور بننے کا کوئی طریقہ ہے اور نہ ہی اپنی ہر خواہش پوری کرنے کا کوئی ’’منفرد طریقہ‘‘ ہے۔ اس کی بجائے مَیں نے ان اقدار کی بات کی جو وقت کے ہر معیار پر پورا اتر چکی ہیں یعنی احترام، مہربانی، دیانت داری، دوسروں کو سراہنا، اچھی خواہشات، محنت، ایفائے عہد اور اچھا انسان بننا!!
میرا مؤقف یہ تھا کہ حقیقی کامیابی حاصل کرنے کا نہ تو کوئی شارٹ کٹ (Short-Cut) ہے، نہ آسان راستہ اورنہ ہی کوئی نیا طریقہ۔ کامیابی تو محنت سے حاصل ہوتی ہے۔

مَیں یہ دیکھ کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی کہ وہ طلبا میری یہ بات سن کر بھی مزید باتیں سننے پر آمادہ تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا، آپ جانتے ہیں ، آپ نے کوئی ایسی بات نہیں کی، جو مَیں پہلے نہ سن چکا ہوں تاہم آپ نے ان ساری پرانی باتوں کو اس انداز سے یکجا کر دیا ہے کہ یہ زیادہ بامعنی ہو گئی ہیں۔ان دونوں نے مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی کہ مجھے یہ کتاب لکھنی پڑے گی۔