خوشحالی کی سائنس
The Science of Getting Rich خوشحالی کی سائنس
تعارف
The Science of Getting Rich خوشحالی کی سائنس
جب آپ کسی ایسی کتاب کو دیکھتے ہیں .جس کا عنوان ہو ’’امیر ہونے کی سائنس‘‘ اور آپ کو یہ شک گزرے. کہ یہ کسی قابلِ اعتراض ترغیب دینے والے مصنف نے لالچ کے حوالے سے لکھی ہے. تو آپ کو معاف کیا جا سکتا ہے۔اپنے ذہن کو کھلا رکھنا بہت اہم ہے. تاہم ویٹلزکی یہ کلاسیک ایک ایسے نظریاتی فلسفے کی کتاب ہے. جو خالصتاََ زمینی مسائل پر بحث کرتی ہے۔
کائنات کے وحدانی نظریہ کے مطابق، جو اس کتاب کی بنیاد ہے.یہ کتاب کہتی ہے .کہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔
یہی مذہب اور مشرقی فلسفے کی بنیاد بھی ہے اور ویٹلز کے دلائل کے مطابق یہ ہی ڈیکارٹ، اسپین نوزا، لیبنیز، شوپنہار، ہیگل، ایمرسن اور دیگر مغربی فلسفیوں کے کام کی بنیاد ہے ۔ جنہیں وہ کئی سالوں تک پڑھتا رہا ہے۔ یہی نئے دور کے گرجا گھر کا اصول ہے جو بلاشبہ انسان کی بہتری کے لیے بہت بھاری اور مذہبی اصولوں کے لیے بہت ہلکا ہے۔
قدیم مذہبی نظرئیے
جبکہ قدیم مذہبی نظرئیے کے مطابق غربت کا تعلق روحانیت یعنی مذہب سے تھا. جبکہ ویلس ڈی لوئس ویٹلز کے نظریات کی بنیاد فطری کثرت سے ہے۔ وہ اس پر منطقی انداز میں دلیل سے کہتا ہے .کہ انسان معاشی حوالے سے محنت کئے بغیر کچھ حاصل نہیں کر سکتا. در حقیقت اس کائنات کا ارتقا بھی اسی بات میں پوشیدہ ہے .کہ ہم جائز ذرائع سے دولت حاصل کریں۔
دولت کا وسیلہ کیا ہے؟ دولت مندی پر کتابیں لکھنے والے تمام مصنفین کا ماننا ہے. کہ ’دولت کا ذریعہ‘ چیزیں نہیں بلکہ انسانی سوچ ہے۔ نپولین ہِل نے اس ذریعے کو لامحدود ذہانت کہا ہے، دیپک چوپڑا نے اسے ’خالص امکانی قوت‘ کا نام دیا ہے .جبکہ ویلس ڈی لوئس ویٹلز اور کیتھرین پونڈر اسے بے صورت مادے کا نام دیتے ہیں. جس سے تمام ’مادوں‘ کا چشمہ پھوٹتا ہے۔
مصنف ویلس ڈی لوئس ویٹلز کا دعویٰ
اس کتاب کے مصنف ویلس ڈی لوئس ویٹلز کا دعویٰ یہ ہے .کہ اگر آپ ایک خیال کو پیش کرتے ہیں .تو ایک دن اسے مادی صورت ضرور ملتی ہے۔اگر آپ کسی چیز کو بار بار تصور کرتے ہیں تو ایک دن وہ چیز موجودہ ذرائع پیداوار سے آپ کے سامنے ’موجود‘ ہوتی ہے۔یہ آپ کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک خفیہ شارٹ کٹ ہے۔
تاہم انسان نے اپنی پوری تاریخ میں اسے غلط طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے .یعنی دستیاب چیزوں سے وسائل پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہا ہے۔اس کتاب کا مصنف کہتا ہے کہ ہم نے خدا کی طرح کام کرنا شروع کیا ہے. یعنی جیسے وہ ’کچھ نہیں‘ سے سب کچھ پیدا کرتا ہے. ایسے ہی ہم اپنی سوچ سے پیدا کریں گے۔ دماغ کی سائنس سے ہم دیکھیں گے کہ ہم چیزوں کو کتنی آسانی اور پرفیکٹ انداز میں صرف ’بے صورت‘ خیال سے پیدا کریں گے یا بنائیں گے۔
کتاب کا تعلق عمل سے ہے
یہ ایک محض فلسفیانہ یا نظریاتی کتاب نہیں ہے.اس کا تعلق عمل سے ہے. یہ ان خواتین وحضرات کے لیے لکھی گئی ہے. جنہیں پیسوں کی اشد ضرورت ہے. اوروہ چاہتے ہیں کہ پہلے خوشحال ہوجائیں اور خوشحالی کا فلسفہ بعد میں حاصل کریں۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں مابعد الطبیعاتی علوم حاصل کرنے کا نہ تو وقت ملا ہے .اور نہ ہی اس کے لیے وسائل اورمواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ وہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں. اور وہ خوشحالی اور سائنس کا ایسا نچوڑ چاہتے ہیں.جس پر بلا تحقیق عمل کرکے وہ نتائج حاصل کرلیں۔
بنیادی باتوں کو بالکل اسی طرح سچ مان لیں
قارئین سے توقع ہے کہ وہ اس کتاب کی بنیادی باتوں کو بالکل اسی طرح سچ مان لیں گے جیسے وہ مار کونی یا ایڈیسن کی طرف سے دئیے گئے برقیات کے بارے میں حقائق کو تسلیم کرلیتے ہیں وہ ان باتوں کو سچ مان کر ان پر بغیر کسی خوف کے بلاتاخیر عمل کریں گے۔
اس کتاب پر عمل کرنے والا ہر فرد یقینا خوشحال ہوجائے گا کیونکہ اس میں پیش کردہ نسخہ بالکل سائنس ہے ا ور سائنس بلا شک وشبہ نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ تاہم ان لوگوں کے لیے جو یقین کی منطقی بنیاد پانے کے لیے فلسفیانہ نظریات جاننا چاہتے ہیں، میں چند ایک ماہرین فن کا حوالہ دینا چاہوں گا:
کائنات کے بار ے میں “ہمہ اوست” یا وحدت لوجود کا نظریہ تمام مشرقی فلسفوں میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظریہ میں یہ مانا جاتا ہے کہ اصل وجود صرف ایک ہی ذات کا ہے اور کائنات میں باقی جو کچھ بھی ہے وہ اسی ذات کے مختلف مظاہر ہیں۔
خوشحالی کی سائنس کی فلسفیانہ توجیح
یہ نظریہ گزشتہ دو صدیوں میں مغرب میں بھی بتدریج مقبولیت حاصل کرتا رہا ہے اور ڈیکارٹ، ایپی نوزا،لائیبنٹز، شوبن ہائر، ہیگل اور ایمرسن کی سوچ پر اس کا بہت اثر ہے۔ لہٰذا آپ میں سے جو خوشحالی کی سائنس کی فلسفیانہ توجیح چاہتا ہے اسے ہیگل اور ایمرسن کا مطالعہ کرلینا چاہیے۔
اس کتاب کو لکھتے وقت میں نے حتی الامکان سادگی اور سلاست سے کام لیا ہے تاکہ تمام قارئین اس کو سمجھ سکیں۔ اس میں بیان کردہ لائحہ عمل ان نتائج سے اخذ کیا گیا ہے
جن پر فلسفہ پہنچا ہے ۔ اس کو اچھی طرح جانچا گیا ہے اوراس کا نتیجہ خیز ہونا تجربہ سے ثابت ہوچکا ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ نتائج کیسے اخذ ہوتے ہیں تو مذکورہ بالا فلسفیوں کی تحریروں کا مطالعہ کریں تاہم اگر آپ اس فلسفیانہ محنت کا صرف پھل کھانا چاہتے ہیں اور تفصیلات میں جانا غیر ضروری سمجھتے ہیں تو صرف اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اس میں بتائے گئے طریقوں پر سنجیدگی سے عمل کرکے خوشحالی کی منزل حاصل کرلیں۔