کتاب کا نام: تاریخ: ٹھگ اور ڈاکو۔
مصنف: ڈاکٹر مبارک علی۔
تاریخ میں ڈاکوؤں کا وجود بغاوت کی علامت ہوتا ہے۔ یہ وڈیروں کے ظلم وستم ، ٹیکسوں کی بہتات، سرکاری عہدیداروں کی رعونت ، کسانوں میں سے بعض افراد کو اس پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ظلم وستم کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہو جائیں۔ جب یہ ڈاکہ زنی کے ذریعے دولت مندوں کو لوٹتے ہیں تو یہ قانون کے تحت مجرم ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب کوئی حملہ آور مفتوح قوموں کا مال غنیمت لوٹتا ہے یا اُن کا قتل عام کرتا ہے تو وہ فاتح کہلاتا ہے۔ کیونکہ ڈاکو طاقتور کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اس لیے یہ عوام میں مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔ جیسے انگلستان میں روبن ہڈ اور برصغیر ہندوستان میں سلطانہ ڈاکو لوک کہانیوں کا موضوع بن گئے ہیں۔ اکثر مورخ ان کو پسماندہ دور کے باغی یا Primitive Rebel کہتے ہیں۔
ڈاکو اُسی وقت تک محفوظ رہتے ہیں جب گاؤں اور دیہاتوں کے عام لوگ ان سے تعاون کرتے ہیں اور انہیں پناہ دیتے ہیں۔ لہذا ڈاکو طاقتور کی نا انصافی اور اُس کے استحصال کی وجہ سے بغاوت کرتے ہیں۔ جہاں تک ٹھگوں کا تعلق ہے ان کا کردار ڈاکوؤں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ فریب ، دھو کے بازی اور جھوٹ کے ذریعے افراد کو اپنے جال میں پھنسا کر اُن کو لوٹتے بھی ہیں اور جان سے مار بھی دیتے ہیں ٹھگی کی اصطلاح کو آج ہم کئی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں کہ کسی عورت سے زیور لے کر اُسے دو گنا کرنے کا لالچ دیتے ہیں۔ کچھ افراد رقم کو دوگنا کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی فون سے یہ پیغام بھی آتا ہے کہ لاٹری میں اُس کے نام پر لاکھوں روپے نکل آئے ہیں۔
ڈاکو ہوں یا ٹھگ یہ کمزور ریاست میں پیدا ہوتے ہیں جو لوگوں کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر پاتی۔ پاکستان میں اب ماڈرن ڈاکو اور ٹھگ پیدا ہو گئے ہیں۔ جو بدعنوانی، رشوت ، غبن اور جعلسازی کے ذریعے دولت اکٹھی کرتے ہیں اور معاشرے کے معزز رکن بن جاتے ہیں۔ موجودہ کتاب ٹھگوں اور ڈاکوؤں کے بارے میں تاریخی معلومات فراہم کرے گی۔ اس کے مطالعے کے بعد اپنے اردگرد ٹھگوں اور ڈاکوؤں کو پہچان سکیں گے۔
صفحات: 256