کتاب کا نام: تاریخ اور عورت۔
مصنف: ڈاکٹر مبارک علی۔
عورت دنیا کی مظلوم ترین مخلوق ہے۔ مرد نے اپنی بالادستی کے لیے اور عورت کا سماجی رتبہ گرانے کے لیے مذہب، تاریخ، بولی جانے والی زبانیں، سماجی اور سائنسی علوم، ان سب کو استعمال کر لیا ہے۔ ارسطو جو یونان کا ایک بڑا فلسفی تھا، اُس کا کہنا تھا کہ عورت کی پیدائش نہ مکمل حمل کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس نظریے کے تحت مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہوگئی جس نے پدرسری کا نظریہ پیدا کیا چونکہ عورت کی شناخت مرد کے ساتھ ہے اس لیے اگر اُس کے شوہر کی وفات ہو جاتی ہے تو وہ بیوہ کی حیثیت سے اپنی شناخت کھو دیتی ہے۔ اسی بنیاد پر ہندوؤں میں ستی کا رواج تھا۔
عورت کے کردار کو اور اُس کی ذہانت اور سرگرمیوں کو تاریخ کا حصہ نہیں بنایا گیا، کیونکہ ہماری تاریخ مردوں کی لکھی ہوئی ہے اس لیے اس میں عورتیں گمنام ہیں۔
جدید دور میں عورتیں مختلف تحریکوں کے ذریعے تاریخ اور سماج میں باوقار مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ لہذا مختلف موضوعات پر عورتوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ وہ ذہانت، قابلیت اور شعور کے لحاظ سے مردوں کے برابر ہیں۔ اب نئے قوانین اور اصولوں کے تحت ترقی یافتہ ملکوں میں عورتوں کو حقوق دیئے گئے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں چونکہ عورتوں کو برابر نہیں سمجھا جاتا اس لیے اُن کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
عورتوں کا سماجی تعلیم میں جو حصہ ہے، اُس کو سمجھنے کے لیے تاریخ اور عورت کا پڑھنا ضروری ہے۔
صفحات: 224