تفسیر ابنِ کثیر تفاسیر بالماثور میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام کی حامل ہے اور اسے ہر زمانے میں یکساں اہمیت حاصل رہی ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ "ذیل طبقات الحفاظ" میں فرماتے ہیں: "لم یولف علی تمطہ مثلہ" یعنی اس قسم کی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔ اس تفسیر کو متعدد ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر القرآن العظیم اور تفسیر القرآن الکریم۔
علامہ ابنِ کثیر نے تفسیر بیان کرنے میں ایک امتیازی اسلوب اختیار کیا ہے۔ پہلے وہ ایک آیت ذکر کرتے ہیں پھر اس کی آسان اور مختصر الفاظ میں وضاحت کرتے ہیں۔ اگر آیت کی توضیح کسی دوسری آیت سے ممکن ہو تو اسے ذکر کرتے ہیں اور دونوں آیات کے درمیان اس طرح موازنہ کرتے ہیں کہ معنی و مطلوب کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اس طرح علامہ موصوف نے تفسیر القرآن بالقرآن کا بہت زیادہ اہتمام کیا ہے۔ وہ اپنی تفسیر کے شروع میں خود فرماتے ہیں۔ ترجمہ: "یعنی تفسیر کا کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے، اس لئےکہ ایک چیز ایک جگہ مجمل و موجز ہے تو وہی چیز دوسری جگہ مفصل و مبسوط ذکر کر دی گئی ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو توتفسیر بذریعہ حدیث کی جائے کیونکہ یہ قرآن کریم کی شرح اور توضیح کرتی ہے۔
علامہ ابن کثیر آیات کی توضیح میں بکثرت قرآنی آیات لاتے ہیں۔ بعد ازاں آیت کے متعلقہ حدیث لاتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے کون سی قابل حجت ہے اور کون سی قابل حجت نہیں۔ اس کے بعد صحابہ و تابعین اور دیگر علمائے سلف کے اقوال تقل کرتے ہیں۔ مفسر موصوف صرف نقل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ بعض اقوال کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں، بعض روایات کو صحیح اور بعض کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور راویوں پر جرح و تعدیل بھی کرتے ہیں، اس لئے کہ انہیں فنون حدیث اور رجال و علل کے متعلق مکمل آگاہی حاصل تھی اور وہ ایک بالغ نظر محدث تھے۔ ان کا بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے تفسیر کو اسرائیلی روایات سے چھانٹ کر الگ کر دیا۔ تفسیر ابنِ کثیر کے مصادر و مآخذ تفسیر ابنِ جریر، تفسیر ابنِ ابی حاتم، تفسیر ابنِ عظیہ اور دیگر متقدمین ہیں۔