سرگزشت اسلام - مسلمانوں کے عروج و زوال کی مکمل تاریخ
چراغ حسن حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد پر دیر پا نقوش مرتب کئے۔ ان کی پیدائش 1904 کو پونچھ (کشمیر) میں ہوئی ۔ فارسی اردو اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پونچھ میں میٹرک کیا اور لاہور سے بی، اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ’زمیندار‘ ’انصاف‘ اور ’احسان‘ جیسے اہم اخبارات سے وابستہ ہوکر صحافیانہ سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران حسرت ’فوجی اخبار‘ کے مدیر بھی رہے۔ روزمانہ ’امروز‘ میں حسرت نے ’سند باد جہازی‘ کے نام سے مذاحیہ کالم لکھے جو اس وقت بہت مقبول ہوئے اور بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔ حسرت زندگی بھر اس قدر متنوع علمی اور تحقیقی کاموں میں لگے رہے کہ انہیں شاعری کے لئے کم وقت مل سکا۔ انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی ’سرگذشت اسلام‘ کے نام سے تاریخ لکھی۔ اسی کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال پر ان کی کتابیں اپنے علمی اور فکری مباحث اور استدلال کی وجہ سے آج بھی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔ 26 جون 1955 کو لاہور میں انتقال ہوا۔
چراغ حسن حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد پر دیر پا نقوش مرتب کئے۔ ان کی پیدائش 1904 کو پونچھ (کشمیر) میں ہوئی ۔ فارسی اردو اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پونچھ میں میٹرک کیا اور لاہور سے بی، اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ’زمیندار‘ ’انصاف‘ اور ’احسان‘ جیسے اہم اخبارات سے وابستہ ہوکر صحافیانہ سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران حسرت ’فوجی اخبار‘ کے مدیر بھی رہے۔ روزمانہ ’امروز‘ میں حسرت نے ’سند باد جہازی‘ کے نام سے مذاحیہ کالم لکھے جو اس وقت بہت مقبول ہوئے اور بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔ حسرت زندگی بھر اس قدر متنوع علمی اور تحقیقی کاموں میں لگے رہے کہ انہیں شاعری کے لئے کم وقت مل سکا۔ انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی ’سرگذشت اسلام‘ کے نام سے تاریخ لکھی۔ اسی کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال پر ان کی کتابیں اپنے علمی اور فکری مباحث اور استدلال کی وجہ سے آج بھی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔ 26 جون 1955 کو لاہور میں انتقال ہوا۔