ڈاکٹر سعد خان کی تحقیقی کتاب ”محمد علی جناح،دولت،جائیداد، وصیت“بانی پاکستان کی دور اندیشی،رہن سہن، دنیا میں احسن اور پُروقار طریقے سے بقا کے لوازمات، رشتے نبھانے، تعلیم سے محبت اور لگاو کے دریچوں کو وا کرتی ہے۔اس کتاب میں بیان کیے گئے واقعات اور ریسرچ پر مبنی ابواب اس بات کے غماز ہیں کہ قائد اعظم محض ایک وکیل ہی نہیں بلکہ ایک اچھے کاروباری انسان بھی تھے جن میں جمالیاتی حس اپنی انتہا کو تھی۔ محترم قائد وسیع عریض مکانات کا شوق رکھتے تھے ۔ اُنھوں نے ایسے مکانات نہ صرف جنوبی ایشیا کے اہم شہرو ں ، جیسا کہ ممبئی ، دہلی، لاہور او ر کراچی بلکہ لندن میں بھی خریدے ۔ان کی جائیدادوں، حصص کی خریداری کا تفصیلی ذکر قاری کو اس کتاب میں مل جائے گا۔ڈاکٹر سعد خان نے محمدعلی جناحؒ کے ان اوصاف سے پردہ اٹھایا ہے جو عام آدمی کی نظروں سے اوجھل اور پوشیدہ تھے۔ آج بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ قائد ِاعظم محمد علی جناح کا شمار جنوبی ایشیا کے چوٹی کے دس امیرترین سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔ اُنھوں نے خود اپنی محنت سے زندگی بنائی تھی۔ یہ اُ ن کی دیانت، لگن اور ذہانت تھی جس کی وجہ سے وہ اتنی دولت کمانے میں کامیاب ہوئے ۔ اُن کی دولت کا ذریعہ صرف قانون کا پیشہ ہی نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کی چوٹی کی صنعتوں کے حصص اور جائیدار میں کی گئی سرمایہ کاری بھی تھی۔ قائد کی دولت اور جائیداد کا تجزیہ ہمیں اُن کی شخصیت کے اندر جھانکنے اور اُن کی ترجیحات کا کھوج لگانے میں مدددیتا ہے ، اس پہلو کی طرف اب تک بیشتر مو رخین کی نظر نہیں گئی تھی۔ یہ کتاب تاریخ کے اسی خلا کو پُر کرنے کی سمت میں ایک قدم ہے ۔ نیز بانی پاکستان ایک خطیر رقم ٹیکس کی مد میں حکومت پاکستان کو ادا کیا کرتے تھے۔ بانی پاکستان کا اپنی وصیت میں تعلیمی اداروں کے لیے خطیر رقم چھوڑنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ مکمل ترکہ نسل در نسل منتقل کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ ان کے نزدیک علم کا حصول ہرخاص و عام کے لیے ضروری تھا۔ آخر میں قائداعظم سے منسوب عمارات جیسے وزیر مینشن، زیارت ریزیڈینسی اور مزارِقائد وغیرہ کی تاریخ بھی بطور ضمیمہ درج کردی گئی ہے۔