میٹھے بول میں جادو ہے
Meethy Bol Main Jado Hai book|
میٹھے بول میں جادو ہے بک
:اس کتاب کے لکھنے کا پس منظر
Meethy Bol Main Jado Hai
کے مصنف ڈیل کارنیگی خود اپنی اس کتاب کے لکھنے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہے
میں خود برسوں اس تلاش میں سرگرداں رہ چکا تھا ۔کہ انسانی تعلقات پر مجھے کوئی جامع عملی کتاب مل جائے۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ ایسی کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ تو میں نے اپنے تعلیمی کورس کے لیے ایک کتاب لکھنی شروع کی۔ یہی کتاب اس وقت ہمارے تبصرے کا موضوع ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اسے پسند کریں گے۔
اس کتاب کی تیاری میں‘ میں نے ہر اس چیز کا مطالعہ کیا جو مجھے میسر تھی۔ ڈوروتھی ڈکس سے لے کر عدالتی علاقوں کے ریکارڈ یا والدین کے لئے رسالوں سے لے کر پروفیسر اور اسٹریت‘ ایلفرڈایڈسر اور ولیم جیمس تک کی کتابیں تو کھنگال ڈالیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے ایک تربیت یافتہ تحقیق کرنے والے کو ڈیڑھ برس تک ملازم رکھا۔ کہ وہ مختلف لائبریریوں میں جاکر ان تمام مضامین کا مطالعہ کرے جو میری نگاہوں سے اوجھل رہ گئے تھے۔ اس نے فلسفۂ جذبات پر بے شمار رسائل پڑھے‘۔ سینکڑوں رسالوں کا مطالعہ کیا ان گنت سوانح عمریاں پڑھیں۔
عظیم الشان انسانوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ
یہ جاننے کے لیے کہ دنیا کے بڑے بڑے آدمیوں نے عام لوگوں سے کس طرح معاملہ کیا ۔ ہم نے ہر دور کے عظیم الشان انسانوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا۔ ہم نے جولیس سیزر سے لے کر ٹامس ایڈیشن تک تمام بڑے رہنمائوں کے حالات پڑھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے تھیوڈورروزولٹ کی ایک سو سے زائد سوانح عمریاں پڑھی ہیں‘ ہم نے تہیہ کرلیا تھا کہ ہم بے دریغ وقت اور روپیہ صرف کرکے ہر اس قابل عمل خیال کو اخذ کرکے رہیں گے جو کسی بھی بڑے آدمی نے کسی بھی دور میں اس خیال سے استعمال کیا کہ لوگوں کو اپنا دوست بنایا جائے اور انہیں متاثر کیا جائے۔
یہ کتاب ایسے نہیں لکھی گئی جیسے عام کتابیں لکھی جاتی ہیں یہ اس طرح مرتب ہوئی ہے جیسے کہ بچہ نشوونما پاتا ہے۔ یہ تو انسانی تجربہ گاہ سے پیدا ہوئی اور پھلی پھولی ہے یا یوں کہئے کہ ہزاروں بالغوں کے تجربات کانچوڑ ہے۔ کئی سال پہلے ہم نے چند چھپے ہوئے اصولوں سے اس کتاب کی ابتداء کی تھی۔ وہ اصول ایک کارڈ پر چھاپے گئے تھے۔ اگلے سال ایک بڑے کارڈ پر ان کی طباعت ہوئی پھر ایک اشتہار پر پھر کتابچوں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں سے ہر ایک اپنے حجم اور ضخامت میں پھیلتا چلا گیا اب پندرہ برس کے تجربے اور تحقیق کے بعد یہ کتاب پیش کی جا رہی ہے۔
ہم نے جو قواعد مرتب کیے ہیں وہ محض نظریات یا تصوری باتیں نہیں ہیں۔ ہمارے اصول تو جادو کی طرح اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بظاہر عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے لیکن میں نے ان اصولوں کے ذریعے بیشتر لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے۔
:ایک جرمن کا خط
کتاب کا ایک باب لکھتے ہوئے مجھے پرانے مکتب خیال کے ایک جرمن کا خط ملا تھا وہ ایک رئیس تھا جس کے آباؤاجداد نے نسلاً بعد نسلاً فوجی افسروں کی حیثیت سے ہوہن زولرز کے ماتحت خدمات انجام دی تھیں ۔اس کا خط بحر اوقیانوس کے اس پار کے ایک جہاز پر سے لکھا گیا تھا جس میں اس نے اصولوں کی پابندی کے نتائج تحریر کیے تھے اس کی تحریر میں اتنا جوش تھا جتنا کہ مذہبی تحریروں میں ہوتا ہے۔
ایک اور شخص جو نیویارک کا قدیم باشندہ ہے اور ہاورڈ یونیورسٹی کا گریجویٹ تھا جس کا معاشرے میں بڑا اعلیٰ درجہ تھا جو دولت مند تھااور قالینوں کے کارخانے کا مالک تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ اس طرزِ تعلیم سے اس نے صرف چودہ ہفتوں کے اندر لوگوں کو متاثر کرنے کا خوبصورت فن اس سے کہیں زیادہ سیکھ لیا ہے جتنا کہ وہ اپنے کالج کی چار سالہ تعلیم کے دوران میں حاصل کرسکا تھا ۔کیا یہ کوئی فضول‘ مضحکہ خیز یا انہونی بات ہے؟ خیر آپ کو اختیار ہے کہ آپ اس بیان کے متعلق جیسی چاہیں رائے قائم کرکے اسے نظرانداز کردیں بہرحال میں نے بغیر تبصرے کے یہ اعلان نقل کردیا ہے جو ایک قدامت پسند اور نہایت کامیاب شخص نے چھ سو اشخاص کے مجمع میں کیا تھا۔
ہاورڈ کے مشہور پروفیسر ولیم جیمز
ہاورڈ کے مشہور پروفیسر ولیم جیمز نے کہا تھا ’’جو کچھ ہمیں بن جانا چاہئے وہ کچھ بننے کے لیے ہم پوری طرح بیدار نہیں ہیں‘ ہم اپنے جسمانی اور دماغی قویٰ کا بہت ہی قلیل حصہ استعمال کرتے ہیں۔ اس بات کو پھیلا کر بیان کیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے۔ کہ عام انسان نہایت ہی محدود دائرے میں زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ مختلف قسم کی قوتیں اپنے اندر رکھتا ہے۔ جن کا استعمال وہ عادتاً نہیں کرسکتا۔ اس کتاب کا واحدمقصد یہی ہے۔ کہ وہ قوتیں جن کا استعمال کرنے میں آپ ’’عادتاً‘‘ ناکام رہتے ہیں۔ آپ کو ان قوتوں کی نشوونما میں مدد دی جائے۔ تاکہ آپ اپنی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کریں۔ اور اپنی اس غیر مستعمل جائیداد سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔
ڈاکٹر جان جی ہین سابق صدر پرنسٹن یونیورسٹی کا قول ہے۔’’تعلیم زندگی میں پیش آنے والی مہموں کا سامنا کرنے کی اہلیت کا نام ہے‘‘۔اس کتاب کے تین باب ختم کرنے کے بعد اگر آپ زندگی کی مہموں کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے بہتر طور پر مسلح نہیں ہوئے۔ تو میں یہ سمجھوں گا کہ میں نے یہ کتاب لکھنے میں جو محنت کی ہے۔ وہ ساری ضائع گئی۔ جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے۔ اس لیے کہ ہربرٹ سنپسر کہتا ہے۔ ’’تعلیم کا بڑا مقصد علم حاصل کرنا نہیں بلکہ عمل کی قوت بیدار کرنا ہے‘‘۔اور یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ایک عملی کتاب ہے جو آپ کو زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنا سکھاتی ہے ۔اور عمل کی قوت پیدا کرتی ہے