فرخ سہیل گوئندی ایک ہمہ جہت شخصیت اور ترقی پسند دانشورہیں۔ سیاست سے لے کر ادب، فن وثقافت اورمختلف شعبوں کے بے شمارافراد سے ان کے ذاتی مراسم رہے۔ ترکی کے چارمرتبہ وزیراعظم رہنے والے بلند ایجوت سے لے کرعثمانی سلطان مراد کی نواسی کنیزے مراد تک بے شمارافراد سے ذاتی تعلقات رہے۔ حسنین ہیکل، پیلومودی، رمزے کلارک، اردال انونو، جمال نکرومہ، اردن کے شاہ حسین اور پرنس حسن بن طلال سے ملاقاتوں کاشرف حاصل ہوا جوبعد میں دوستیوں میں بدل گئیں۔ کتاب میں تیس سے زائد شخصیات سے ملاقاتوں کااحوال شامل ہے جن میں سے ہرایک دلچسپ اورمعلومات افزاہے۔آئی اے رحمٰن کتاب کے تعارف میں بالکل درست لکھتے ہیں:۔
’’لوگ درلوگ کئی داستانوں کامجموعہ ہے۔ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں متراں والی کے دومتحرک خاندانوں کی داستان، سرگودھا کے بسنے اوراسے بسانے والوں کی داستان۔ ایک سکھ خاتون، دیپ کوراوراُن کے انگریزشوہرکی بیٹی مریناوہیلرکی اپنی جڑوں کی تلاش کرنے کی داستان۔ پاکستان میں 1970ء کی دہائی میں امیدوں کے سیلاب کی داستان، پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین اوراس کومقبول بنانے والوں کی داستان، ہندوستان اورپاکستان کے درمیان صلح وآشتی کا پرچار کرنے والوں کی داستان اور فرخ سہیل گوئندی کی جادہ پیمائی کی داستان۔ اس خوبصورت کتاب میں گوئندی نے ذوالفقارعلی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کا سحر بیان کیا ہے، بے نظیر بھٹوسے ملاقات کے تاثرات قلمبند کیے ہیں، اورسیاسی رہنماؤں کے خاکے بھی پیش کیے ہیں۔ قارئین کی ملاقات شیخ محمد رشید، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد، راؤعبدالرشید اور ممتاز کاہلوں کے علاوہ عاصمہ جہانگیر، محمود مرزا، مدیحہ گوہر، ڈاکٹر انورسجاد، منو بھائی، وارث میر، یونس ادیب اورکئی دوسرے اکابرین اورکارکنوں سے کروائی ہے۔ کئی ہندوستانی شخصیات کاتذکرہ ہے، جن میں خشونت سنگھ، کلدیپ نیئر، اندر کمار گجرال اور حاجی مستان مرزاشامل ہیں۔ سب سے نمایاں خاکہ فرخ سہیل گوئندی کاہی ہے۔ وہ ایساجہاں گردہے کہ معمولی سے رقم گرہ میں باندھ کر انسان دوستی کی طاقت سے دنیا کو زیر کرنے نکل پڑتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں دوست بنانے کی صلاحیت کی اعلیٰ ترین مثال ترکی کے قدآور سیاستدان بلندایجوت سے تعلق خاص کی حکایت ہے۔ جنہوں نے ترکی میں متعدد بارگوئندی پذیرائی کی۔ وہ گوئندی کی دعوت پردس دن کے لیے پاکستان آئے اورسرکاری مہمان بننے کی بجائے گوئندی کے مہمان بننے پراصرارکیا۔ یہ کتاب پرشورعہدکی ایسی تصویرہے جسے پڑھ کر قارئین تولطف اندوز ہوں گے ہی، اس میں مورخین کے لیے بھی بہت ساقابلِ قدرمواد موجودہے۔ ان کی اس دلچسپ کتاب کوشروع کرنے کے بعدختم ہونے سے پہلے دُورکرناممکن نہیں ہوگا۔
’’لوگ درلوگ کئی داستانوں کامجموعہ ہے۔ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں متراں والی کے دومتحرک خاندانوں کی داستان، سرگودھا کے بسنے اوراسے بسانے والوں کی داستان۔ ایک سکھ خاتون، دیپ کوراوراُن کے انگریزشوہرکی بیٹی مریناوہیلرکی اپنی جڑوں کی تلاش کرنے کی داستان۔ پاکستان میں 1970ء کی دہائی میں امیدوں کے سیلاب کی داستان، پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین اوراس کومقبول بنانے والوں کی داستان، ہندوستان اورپاکستان کے درمیان صلح وآشتی کا پرچار کرنے والوں کی داستان اور فرخ سہیل گوئندی کی جادہ پیمائی کی داستان۔ اس خوبصورت کتاب میں گوئندی نے ذوالفقارعلی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کا سحر بیان کیا ہے، بے نظیر بھٹوسے ملاقات کے تاثرات قلمبند کیے ہیں، اورسیاسی رہنماؤں کے خاکے بھی پیش کیے ہیں۔ قارئین کی ملاقات شیخ محمد رشید، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد، راؤعبدالرشید اور ممتاز کاہلوں کے علاوہ عاصمہ جہانگیر، محمود مرزا، مدیحہ گوہر، ڈاکٹر انورسجاد، منو بھائی، وارث میر، یونس ادیب اورکئی دوسرے اکابرین اورکارکنوں سے کروائی ہے۔ کئی ہندوستانی شخصیات کاتذکرہ ہے، جن میں خشونت سنگھ، کلدیپ نیئر، اندر کمار گجرال اور حاجی مستان مرزاشامل ہیں۔ سب سے نمایاں خاکہ فرخ سہیل گوئندی کاہی ہے۔ وہ ایساجہاں گردہے کہ معمولی سے رقم گرہ میں باندھ کر انسان دوستی کی طاقت سے دنیا کو زیر کرنے نکل پڑتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں دوست بنانے کی صلاحیت کی اعلیٰ ترین مثال ترکی کے قدآور سیاستدان بلندایجوت سے تعلق خاص کی حکایت ہے۔ جنہوں نے ترکی میں متعدد بارگوئندی پذیرائی کی۔ وہ گوئندی کی دعوت پردس دن کے لیے پاکستان آئے اورسرکاری مہمان بننے کی بجائے گوئندی کے مہمان بننے پراصرارکیا۔ یہ کتاب پرشورعہدکی ایسی تصویرہے جسے پڑھ کر قارئین تولطف اندوز ہوں گے ہی، اس میں مورخین کے لیے بھی بہت ساقابلِ قدرمواد موجودہے۔ ان کی اس دلچسپ کتاب کوشروع کرنے کے بعدختم ہونے سے پہلے دُورکرناممکن نہیں ہوگا۔
No. of Pages | 224 |