کتاب کا نام: جاگیر داری
مصنف: ڈاکٹر مبارک علی
قدیم زمانے میں زرعی زمین کی اہمیت ہوا کرتی تھی ، کیونکہ پیداوار اور لگان آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ بادشاہ اپنے وفادار اُمرا کو زرعی زمین بطور جا گیر دیا کرتا تھا تا کہ وقت ضرورت وہ اُس کی مالی اور فوجی مدد کرے ۔ مختلف سلطنتوں میں جاگیر کی مختلف شکلیں ہوا کرتیں تھیں۔ کہیں جاگیر موروثی ہوتی تھی جو ایک ہی خاندان کے افراد میں منتقل ہو جاتی تھی۔ اگر جاگیر کے کئی حصے دار ہوتے تھے تو اُسے ان میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ وقت کے ساتھ جاگیردار خاندان کا خاتمہ ہو جاتا تھا۔ اس کو روکنے کے لئے یورپ میں یہ قانون بنایا گیا ، کہ جائیداد کا وارث بڑا لڑکا ہوگا۔
ہندوستان میں بادشاہ زمین کا مالک ہوتا تھا۔ کسی بھی امیر کو جاگیر خاص وقت کے لئے دی جاتی تھی۔ اُس کی جاگیر کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ اُس کے ریٹائر ہونے یا مرنے پر جاگیر دوبارہ سے بادشاہ کے پاس آجایا کرتی تھی۔ لہذا جاگیر داروں کا کوئی مستقل طبقہ نہیں تھا۔
جب ہندوستان میں برطانوی حکومت قائم ہوئی تو اُس نے جاگیرداروں کا ایک نیا طبقہ پیدا کیا اور جاگیر کونجی بنا دیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وفادار جاگیردار طبقہ برطانوی حکومت کا وفادار رہے اور وقت ضرورت اُن کی مالی امداد بھی کرتا رہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان کی حکومت نے جاگیرداری اور مقامی ریاستوں کو ختم کر دیا۔ لیکن پاکستان میں موروثی جاگیردار خاندان باقی رہے جو آج بھی ملک کی سیاست، معیشت اور عام لوگوں پر اپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہیں۔
صفحات: 272