کتاب: انسانی نفسیات کے راز : ایک ماہر نفسیات کی ڈائری
مصنف : ڈاکٹر خالد سہیل
انسان تین عناصر کا مرکب ہے : دماغ، جسم اور ذات یا ہستی۔ اس ذات یا ہستی کو سائنس کی ترویج سے قبل روح بھی کہا جاتا تھا اور اب جدید طبی سائنس اس کو انسانی شعور کہتی ہے۔ ان تینوں عناصر میں سے انسانی دماغ ایک پیچیدہ مشین ہے۔ ہمارے رویے، رجحانات، جذبات اور دوسرے افراد کے ساتھ رشتوں کی نوعیت اسی مشین کی کارستانیاں ہیں۔ انسانی شعور بھی اسی مشین کی کار کردگی پر انحصار کرتا ہے۔ یہ مشین اتنی اہم ہے کہ زندگی تمام اٹکھیلیاں اسی سے جڑی ہیں۔ دماغ میں خون کی روانی بند ہوتے ہی زندگی کا کھیل ختم ہو جاتا ہے۔
جس طرح معدہ، دل، جگر اور مثانے وغیرہ میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں، دکھی ہو جاتے ہیں اور زندگی کو بھرپور طریقے سے نہیں جی سکتے اسی طرح دماغ میں خلل پیدا ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ دماغی امراض میں مبتلا افراد اپنے اور اپنے سے جڑے دیگر افراد کے لیے باعث زحمت بن جاتے ہیں۔ آج کل نفسیاتی بیماریاں اتنی عام ہیں کہ میرے خیال میں ہر گھر میں ایک نفسیات داں ہونا چاہیے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی بیماری نہیں بھی تو نفسیاتی الجھن میں ضرور مبتلا ہے۔
انسانی شخصیت کی تعمیر میں اس کی جینیاتی خصوصیات، بچپن کی کنڈیشننگ (سکھلائی) اور سماجی ماحول اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حاصل شدہ معلومات، مشاہدات اور انسانی تجربات کے مرکب سے انسانی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ’انسانی نفسیات‘ انسانی دماغ اور انسانی رویے کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ لوگ اپنے سے وابستہ دیگر افراد کے ساتھ غیر معمولی، غیر صحت مندانہ اور ضرر رساں سلوک کیوں روا رکھتے ہیں؟ ان لوگوں کو ایسے رویے سے کیسے باز رکھا جا سکتا ہے؟ ایسا معالجہ دواؤں سے بھی ممکن ہے اور کونسلنگ (ماہرانہ مشورے ) سے بھی۔ دوا کے بغیر الفاظ، گفتگو اور ماہرانہ تجاویز سے قائل کر کے نفسیاتی عارضوں میں مبتلا افراد کا طرز فکر اور طرز حیات بدل دینے کا عمل ”سائیکو تھراپی“ کہلاتا ہے۔ یہ ایک جدید طریقہ علاج ہے اور اس کتاب کے مصنف کا علاقہ ہے۔
کینیڈا میں مقیم شمالی امریکہ کے معروف نفسیات داں ڈاکٹر خالد سہیل کی تازہ تصنیف ”انسانی نفسیات کے راز“ 303 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دراصل چالیس سالہ پیشہ وارانہ نفسیاتی معالجے اور اس سے حاصل کردہ تجربات کا نچوڑ ہے، جسے کتاب کے سرورق پر بجا طور پر ”ایک نفسیات داں کی ڈائری“ لکھا گیا ہے۔
زیر نظر کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے : پہلے دو ابواب میں مضامین اور واقعات کے ساتھ حقیقی زندگی میں لوگوں کے شدید ذہنی عارضوں کا تذکرہ کہانیوں کی صورت میں کیا گیا ہے۔ تیسرے اور چوتھے ابواب میں نفسیاتی بیماریوں کی وجوہات نہایت موثر مگر دلچسپ انداز میں کہانیوں اور واقعات کی شکل میں بیان کی گئی ہیں۔ چوتھا باب خالصتاً علم نفسیات سے متعلق ہے۔ جس میں علم نفسیات کی ابتداء سے لے کر جدید دریافتوں پر پچاس سے اوپر صفحات پر مشتمل سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
جس میں انسانی نفسیات، شعور، فرائیڈ اور تحلیل نفسی، کارل ینگ اور اجتماعی شعور، سالیوان اور انسانی رشتے، بوون اور خاندانی رشتے، بولبی اور ماں بچے کا رشتہ، ایرکسن اور زندگی کے ادوار، ماسلو، نفسیات اور روحانیات، فرام اور نفسیات، سماجیات اور سیاسیات اور کین ولبر اور انسانی شعور کے ارتقاء کا نظریہ جیسے دلچسپ بامعنی اور مفید مضامین شامل ہیں۔
چھٹا اور آخری باب خالصتاً علم نفسیات کے ارتقاء سے متعلق ہے، جس میں نفسیات کی تاریخ اور دقیق جذباتی و ذہنی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انسانی سائیکی۔ روح یا ذہن؟ مذہب اور روحانیات، روحانی تجربات کا تجزیہ، سائنس اور روحانیات کا رشتہ اور انسان کے شعوری ارتقاء میں صوفیوں، فنکاروں اور سائنسدانوں کا کردار جیسے نہایت لطیف موضوعات نہایت دلکش انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نفسیاتی زبان ایک مشکل زبان ہے۔ اس کی اصطلاحات بہت مشکل ہیں اور میرے جیسے شخص کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ عام ایک آدمی بھی اس کو سمجھ کر مستفید ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہی اس کتاب کی سب سے بڑی افادیت ہے۔
کتاب تحریر کرنے کا مقصد اس کے بیک کور پر مصنف نے یوں تحریر کیا ہے : ”اس کتاب میں آپ کو انسانی نفسیات کے وہ راز پڑھنے کو ملیں گے جو میں نے اپنی چالیس سالہ پیشہ وارانہ زندگی میں فلسفیوں، دانشوروں، اساتذہ اور مریضوں سے سیکھے۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ راز آپ کو ایک صحت مند خوش گوار اور پر سکون زندگی گزارنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے ۔ “
اگر مصنف سیدھا سیدھا مرض کا بیان مریض کا حال اور تشخیص جیسا روایتی طریقہ کار کا طریقہ اپناتے تو یہ کتاب خشک نفسیاتی و طبی اصطلاحات اور تکلیف دہ واقعات کا ملغوبہ بن جاتی۔ مگر مصنف نے یہ کتاب تحریر کرتے ہوئے ذہنی امراض، علامات اور تشخیص کو آسان اردو زبان استعمال کر کے دلچسپ کہانیوں کی صورت میں بیان کیا ہے، جس سے ایک تو قاری کی دلچسپی، روانی اور محویت متاثر نہیں ہوئی دوسرے وہ ان مریضوں کی مثالیں سامنے رکھ کر اپنا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور یہی کتاب کی سب سے بڑی افادیت ہے۔
بین الاقوامی طور پر اہم ترین نفسیاتی بیماریوں کو جن اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں پہلا گروہ ”موڈ ڈس آرڈر“ کا ہے جس میں ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر اہم بیماریاں ہیں۔ دوسرے گروہ میں اینگزائٹی ڈس آرڈرز (گھے براہٹ اور بے چینی ) آتے ہیں۔ تیسرا گروہ پرسنیلٹی ڈس آرڈر ( شخصیت کی کجی) پر مشتمل ہے جس میں بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر اہم ترین ہے۔ ، چوتھے گروہ میں سائیکوٹک ڈس آرڈرز (دماغی خلل) شامل ہیں جس کی ایک مثال شیزو فرینیا اور دوسری بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔
پانچویں گروہ میں ایٹنگ ڈس آرڈرز آتے ہیں۔ کھانے کی بیماری، جس میں اکثر جنوبی ایشیائی قومیں بالخصوص پاکستانی بڑے شوق سے مبتلا ہیں۔ چھٹا گروہ ذہنی صدمات سے پیدا شدہ بیماریوں سے متعلق ہے جس کو ٹراما ریلیٹڈ ڈس آرڈر (صدمات سے پیدا شدہ ذہنی عارضے ) کہتے ہیں اور اس کی ایک مثال پوسٹ ٹرامک سٹریس ڈس آرڈر (کسی صدمے کو بھلا نہ پانا اور غم میں مبتلا رہنا) ہے۔ ساتواں گروہ سبسٹس ابیوز ڈس آرڈر ہے جس میں منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والی ذہنی بیماریاں شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ان تمام گروہوں میں شامل ذہنی عارضوں میں مبتلا مریضوں کے امراض اور صحت یابی کی کہانیوں کو نہایت آسان زبان اور ادبی اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ جس سے ایک عام قاری اپنا نفسیاتی علاج اگر نہیں بھی کر سکتا تو کم ازکم اپنی بیماری سے آگاہی ضرور حاصل کر سکتا ہے۔
اتنے دقیق اور سنجیدہ موضوع پر ایک عام فہم کتاب لکھنے پر میں ڈاکٹر خالد سہیل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
تبصرہ : نعیم اشرف
مصنف : ڈاکٹر خالد سہیل
انسان تین عناصر کا مرکب ہے : دماغ، جسم اور ذات یا ہستی۔ اس ذات یا ہستی کو سائنس کی ترویج سے قبل روح بھی کہا جاتا تھا اور اب جدید طبی سائنس اس کو انسانی شعور کہتی ہے۔ ان تینوں عناصر میں سے انسانی دماغ ایک پیچیدہ مشین ہے۔ ہمارے رویے، رجحانات، جذبات اور دوسرے افراد کے ساتھ رشتوں کی نوعیت اسی مشین کی کارستانیاں ہیں۔ انسانی شعور بھی اسی مشین کی کار کردگی پر انحصار کرتا ہے۔ یہ مشین اتنی اہم ہے کہ زندگی تمام اٹکھیلیاں اسی سے جڑی ہیں۔ دماغ میں خون کی روانی بند ہوتے ہی زندگی کا کھیل ختم ہو جاتا ہے۔
جس طرح معدہ، دل، جگر اور مثانے وغیرہ میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں، دکھی ہو جاتے ہیں اور زندگی کو بھرپور طریقے سے نہیں جی سکتے اسی طرح دماغ میں خلل پیدا ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ دماغی امراض میں مبتلا افراد اپنے اور اپنے سے جڑے دیگر افراد کے لیے باعث زحمت بن جاتے ہیں۔ آج کل نفسیاتی بیماریاں اتنی عام ہیں کہ میرے خیال میں ہر گھر میں ایک نفسیات داں ہونا چاہیے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی بیماری نہیں بھی تو نفسیاتی الجھن میں ضرور مبتلا ہے۔
انسانی شخصیت کی تعمیر میں اس کی جینیاتی خصوصیات، بچپن کی کنڈیشننگ (سکھلائی) اور سماجی ماحول اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حاصل شدہ معلومات، مشاہدات اور انسانی تجربات کے مرکب سے انسانی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ’انسانی نفسیات‘ انسانی دماغ اور انسانی رویے کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ لوگ اپنے سے وابستہ دیگر افراد کے ساتھ غیر معمولی، غیر صحت مندانہ اور ضرر رساں سلوک کیوں روا رکھتے ہیں؟ ان لوگوں کو ایسے رویے سے کیسے باز رکھا جا سکتا ہے؟ ایسا معالجہ دواؤں سے بھی ممکن ہے اور کونسلنگ (ماہرانہ مشورے ) سے بھی۔ دوا کے بغیر الفاظ، گفتگو اور ماہرانہ تجاویز سے قائل کر کے نفسیاتی عارضوں میں مبتلا افراد کا طرز فکر اور طرز حیات بدل دینے کا عمل ”سائیکو تھراپی“ کہلاتا ہے۔ یہ ایک جدید طریقہ علاج ہے اور اس کتاب کے مصنف کا علاقہ ہے۔
کینیڈا میں مقیم شمالی امریکہ کے معروف نفسیات داں ڈاکٹر خالد سہیل کی تازہ تصنیف ”انسانی نفسیات کے راز“ 303 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دراصل چالیس سالہ پیشہ وارانہ نفسیاتی معالجے اور اس سے حاصل کردہ تجربات کا نچوڑ ہے، جسے کتاب کے سرورق پر بجا طور پر ”ایک نفسیات داں کی ڈائری“ لکھا گیا ہے۔
زیر نظر کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے : پہلے دو ابواب میں مضامین اور واقعات کے ساتھ حقیقی زندگی میں لوگوں کے شدید ذہنی عارضوں کا تذکرہ کہانیوں کی صورت میں کیا گیا ہے۔ تیسرے اور چوتھے ابواب میں نفسیاتی بیماریوں کی وجوہات نہایت موثر مگر دلچسپ انداز میں کہانیوں اور واقعات کی شکل میں بیان کی گئی ہیں۔ چوتھا باب خالصتاً علم نفسیات سے متعلق ہے۔ جس میں علم نفسیات کی ابتداء سے لے کر جدید دریافتوں پر پچاس سے اوپر صفحات پر مشتمل سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
جس میں انسانی نفسیات، شعور، فرائیڈ اور تحلیل نفسی، کارل ینگ اور اجتماعی شعور، سالیوان اور انسانی رشتے، بوون اور خاندانی رشتے، بولبی اور ماں بچے کا رشتہ، ایرکسن اور زندگی کے ادوار، ماسلو، نفسیات اور روحانیات، فرام اور نفسیات، سماجیات اور سیاسیات اور کین ولبر اور انسانی شعور کے ارتقاء کا نظریہ جیسے دلچسپ بامعنی اور مفید مضامین شامل ہیں۔
چھٹا اور آخری باب خالصتاً علم نفسیات کے ارتقاء سے متعلق ہے، جس میں نفسیات کی تاریخ اور دقیق جذباتی و ذہنی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انسانی سائیکی۔ روح یا ذہن؟ مذہب اور روحانیات، روحانی تجربات کا تجزیہ، سائنس اور روحانیات کا رشتہ اور انسان کے شعوری ارتقاء میں صوفیوں، فنکاروں اور سائنسدانوں کا کردار جیسے نہایت لطیف موضوعات نہایت دلکش انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نفسیاتی زبان ایک مشکل زبان ہے۔ اس کی اصطلاحات بہت مشکل ہیں اور میرے جیسے شخص کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ عام ایک آدمی بھی اس کو سمجھ کر مستفید ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہی اس کتاب کی سب سے بڑی افادیت ہے۔
کتاب تحریر کرنے کا مقصد اس کے بیک کور پر مصنف نے یوں تحریر کیا ہے : ”اس کتاب میں آپ کو انسانی نفسیات کے وہ راز پڑھنے کو ملیں گے جو میں نے اپنی چالیس سالہ پیشہ وارانہ زندگی میں فلسفیوں، دانشوروں، اساتذہ اور مریضوں سے سیکھے۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ راز آپ کو ایک صحت مند خوش گوار اور پر سکون زندگی گزارنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے ۔ “
اگر مصنف سیدھا سیدھا مرض کا بیان مریض کا حال اور تشخیص جیسا روایتی طریقہ کار کا طریقہ اپناتے تو یہ کتاب خشک نفسیاتی و طبی اصطلاحات اور تکلیف دہ واقعات کا ملغوبہ بن جاتی۔ مگر مصنف نے یہ کتاب تحریر کرتے ہوئے ذہنی امراض، علامات اور تشخیص کو آسان اردو زبان استعمال کر کے دلچسپ کہانیوں کی صورت میں بیان کیا ہے، جس سے ایک تو قاری کی دلچسپی، روانی اور محویت متاثر نہیں ہوئی دوسرے وہ ان مریضوں کی مثالیں سامنے رکھ کر اپنا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور یہی کتاب کی سب سے بڑی افادیت ہے۔
بین الاقوامی طور پر اہم ترین نفسیاتی بیماریوں کو جن اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں پہلا گروہ ”موڈ ڈس آرڈر“ کا ہے جس میں ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر اہم بیماریاں ہیں۔ دوسرے گروہ میں اینگزائٹی ڈس آرڈرز (گھے براہٹ اور بے چینی ) آتے ہیں۔ تیسرا گروہ پرسنیلٹی ڈس آرڈر ( شخصیت کی کجی) پر مشتمل ہے جس میں بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر اہم ترین ہے۔ ، چوتھے گروہ میں سائیکوٹک ڈس آرڈرز (دماغی خلل) شامل ہیں جس کی ایک مثال شیزو فرینیا اور دوسری بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔
پانچویں گروہ میں ایٹنگ ڈس آرڈرز آتے ہیں۔ کھانے کی بیماری، جس میں اکثر جنوبی ایشیائی قومیں بالخصوص پاکستانی بڑے شوق سے مبتلا ہیں۔ چھٹا گروہ ذہنی صدمات سے پیدا شدہ بیماریوں سے متعلق ہے جس کو ٹراما ریلیٹڈ ڈس آرڈر (صدمات سے پیدا شدہ ذہنی عارضے ) کہتے ہیں اور اس کی ایک مثال پوسٹ ٹرامک سٹریس ڈس آرڈر (کسی صدمے کو بھلا نہ پانا اور غم میں مبتلا رہنا) ہے۔ ساتواں گروہ سبسٹس ابیوز ڈس آرڈر ہے جس میں منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والی ذہنی بیماریاں شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ان تمام گروہوں میں شامل ذہنی عارضوں میں مبتلا مریضوں کے امراض اور صحت یابی کی کہانیوں کو نہایت آسان زبان اور ادبی اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ جس سے ایک عام قاری اپنا نفسیاتی علاج اگر نہیں بھی کر سکتا تو کم ازکم اپنی بیماری سے آگاہی ضرور حاصل کر سکتا ہے۔
اتنے دقیق اور سنجیدہ موضوع پر ایک عام فہم کتاب لکھنے پر میں ڈاکٹر خالد سہیل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
تبصرہ : نعیم اشرف