Ik Girah Khul Janay Se

  • Sale
  • Rs.785.00
  • Regular price Rs.800.00


دل کی باتیں

یہ کتاب یعنی ’’ایک گرہ کُھل جانے سے‘‘ ترتیب کے اعتبار سے میرا سترواں(17) شعری مجموعہ ہے لیکن اشاعت میں وقفے کی کمی کے اعتبار سے اس کا نمبرپہلا ہے کہ میرے کسی بھی دو مجموعوں کی اشاعت کے درمیان اس سے کم وقفہ کبھی نہیں رہا ۔ گزشتہ مجموعہ ’’زندگی کے میلے میں‘‘ 2018ء کے وسط میں چھپا تھا اور یہ انشاء اللہ 2020ء ختم ہونے سے پہلے پہلے آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ جس چیز کو مولانا حالی نے ’’آمد‘‘ کہا تھا میرے ساتھ اب اُس کا معاملہ ایک مخصوص شکل اختیار کر گیا ہے کہ ایک سال میں دو یا تین مرتبہ چند دنوں پر مشتمل ایک ایسا وقت آتا ہے جب طبیعت خود بخود رواں ہوجاتی ہے اور ایک ساتھ بہت سی چیزیں لکھی جاتی ہیں اور یوں تین سے چار سال کے درمیان ایک کتاب کی صورت بن جاتی ہے اس بار یہ تخلیقی دورانیہ تقریباً دو مہینوں پر محیط رہا (شائد اس کا کچھ بالواسطہ کریڈٹ Covid 19 کو بھی جاتا ہو کہ اس کی وجہ سے تقریباً پانچ مہینے مسلسل گھر ہی میں رہنا پڑا ہے اور عملی طور پر کچھ کرنے کو بھی نہیں تھا) اور اس کی زرخیزی کا عالم یہ تھا کہ بعض اوقات میں مسلسل کئی کئی گھنٹے لکھتا رہا ہوں اورخود بخود ایک کے بعد کوئی نئی نظم یا غزل شروع ہوجاتی تھی ۔ ایک اندازے کے مطابق تعداد کے اعتبار سے کسی ایک مجموعے میں شامل سب سے زیادہ غزلیں اور نسبتاً طویل نظمیں بھی ا سی کتاب میں ہیں اور اس میں شامل منظومات کی تعداد بھی گزشتہ تمام مجموعوں سے زیادہ ہے ۔

جہاں تک اس کے نام کا تعلق ہے تو یہ میرے ایک غزلیہ مطلعے سے مستعار ہے اور اتفاق سے وہ غزل بھی ا سی مجموعے میں شامل ہے ۔

کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے
ساری گِرہیں کُھل جاتی ہیں ایک گِرہ کُھل جانے سے

اتفاق سے میرے اکثر مجموعوں کے نام یک یا دو لفظی ہیں اور اتنا لمبا نام تو کسی کا بھی نہیں۔ اس تذبذب میں تھا کہ میں اکثر شعری مجموعوں کے لمبے لمبے کالموں کو ناپسند کرتا رہا ہوں اور اب اگر خود یہی کام کروںتو یقیناً یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوگی لیکن گزشتہ دو دنوں میں میری تین ایسے احباب سے اس کے بارے میں گفتگو ہوئی جن کی رائے کو میں بہت اہمیت دیتاہوں اور تینوں ہی نے ا سے پسند کیا اور اس کے حق میں ووٹ دیا۔ میری مراد برادرم گُلزار،سید سرفراز احمد شاہ صاحب اور انور مسعود سے ہے ۔ (لطف کی بات یہ ہے کہ سرفراز احمد شاہ صاحب کو ابھی تک پتہ نہیں کہ یہ کتاب میں اُنہی کے نام کر رہا ہوں)۔

 

اس کتاب کی کچھ نظموں کا انداز آپ کو میری نظموں کے عمومی مزاج سے مختلف نظر آئے گا ایسا کیوں اور کیسے ہُوا فی الوقت میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے یہ مجھے ہر بار پڑھنے پر پہلے سے زیادہ مزا دیتی ہیں کہ ان میں بعض پیچیدہ اور متنازعہ فلسفیانہ مسائل اور موضوعات بہت سہولت سے ادا ہوگئے ہیں۔ سہولت سے یاد آیا کہ یہ لفظ فیضؔ صاحب نے میری دوسری کتاب ’’ساتواں دَر‘‘ کے فلیپ میں استعمال کیا تھا اور مجھے بتایا تھا کہ عربی زبان میں سہولت کا مطلب وہ آسانی ہوتا ہے جو بہت ریاضت اور کوشش کے بعد حاصل ہوتی ہے اُس وقت یہ بات میری سمجھ میں پوری طرح سے نہیں آئی تھی اب کچھ کچھ آئی ہے تو بہت مزا دے رہی ہے ۔ ان نظموں میں ایک نظم کا میں خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہتاہوں جس کا عنوان ’’آئو وعدہ کریں‘‘ اور ذیلی عنوان ’’کورونا کے بعد لکھی گئی پہلی نظم‘‘ ہے۔ پہلی دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ لکھی عین کورونا کے عروج کے دنوں میں گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اس میں ایک ایسی نئی دنیا کا تصور پیش کیا گیا تھا جو اصل میں ہماری پرانی اور گمشدہ دنیا ہی کا عکس تھا مگر اسے دیکھے اوربُھلائے ہوئے صدیاں گزرچکی تھیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سی نظموں اور غزلوں میں کورونا، اُس کے پیدا کردہ مسائل اور بعد ازاں بننے والی صُورت حال پرطبع آزمائی کی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ طوفانِ نوحؑ اور اُس کے بعد آنے والے طرح طرح کے انقلابات کی طرح کیا ہم اس تجربے کو بھی بھول جائیں گے یا اپنی ہمہ گیر وسعت اور تباہی کے باعث یہ ہمیں اپنی زندگیوں کے مزاج اور مقصد کو دوبارہ سے متعین کرنے کے لئے ایک زندہ استعارا بن کر ہمارے ساتھ ساتھ چلے گا۔ ان چھ ماہ میں دنیا میں ٹیکنالوجی، فاصلوں اور اجتماعی سوچ کے حوالے سے جو تبدیلیاں آئی ہیں اُن کا مستقبل کی دنیا پر کیا اثر پڑے گا اور وہ کس طرح کی ہوں گی اس کے بارے میں فی الوقت حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ایک بات طے ہے کہ وہ ایک نئی اور مختلف دنیا ہوگی۔ سیاست، تہذیب ، ماحولیات ، طرزِ زندگی، باہمی تعلقات ، اخلاقیات ، جمالیات غرضیکہ سب کچھ بدل جائے گا ۔ عین ممکن ہے کتاب پڑھنے سے زیادہ سننے کی چیز بن جائے اور ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ سہولیات کے باعث انسانوں کا انسانوں سے زیادہ مشینوں سے تعلق راسخ ہوجائے ا ور یوں دنیا کو ایک بار پھر مذہب کی ضرورت شدّت سے محسوس ہونے لگے اور سٹیو جابز کے آخری الفاظ کے مطابق انسانی رشتے مادی اشیاء اور معاشی ترقی کے مقابلے میں اپنا وہ گمشدہ مقام حاصل کرسکیں جو اس عالمِ رنگ و بو کی سب سے خوب صورت چیز ہیں ۔

اب تک کی 76 سالہ زندگی میں ادب کے ساتھ میرے تعلق کا دورانیہ نصف صدی سے زیادہ اور کُل ملا کر 80 کتابوں پر پھیل چکا ہے ۔ ربِ کریم نے دنیاوی ایوارڈوں اور مقبولیت کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی نعمتوں سے بھی نوازا ہے اور ذاتی سطح پر وہ سب کچھ عطا فرمایا ہے جس کی کوئی شخص آرزو کر سکتا ہے صرف ایک حسرت رہ گئی ہے کہ کاش ہمارا معاشرہ، ہم وطن، ہم مذہب اور پوری دنیا کے مثبت سوچ رکھنے والے لوگ بھی مل کر اس دنیا کو ایک ایسی جگہ بنا سکیں جہاں انسان کو وہ مرتبہ حاصل ہو جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا تھا اور رنگ و نسل، مذہب اور زبان کی تفریق اور تقسیم سے آزاد ہوکر سب لوگ مل جل کر اور ہر طرح کے انصاف پر مبنی ایک ایسے ماحول میں زندگی گزار سکیں جہاں برابری اور مساوات کے ساتھ ساتھ اُن خوشیوں کا دور دورہ ہو جس کے خواب ہر زبان کے شاعر کب سے دیکھتے اور سمجھتے چلے آرہے ہیں۔


Author: Amjad Islam Amjad

Language: Urdu

Number of Pages: 232