کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ
یہ قافیہ پیمائی، ذرا کر کے تو دیکھو
اس بات کو اگلے وقتوں میں قبلہ میرتقی میرؔ نے کچھ یوں بیان کیا تھا کہ:
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ُہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر ُخوں کروں ُہوں میں
اور کم و بیش اسی کیفیت کو غالب نے اپنی فطری جودتِ طبع کے باعث ایک نیا رنگ کچھ اس طرح سے دیا کہ ’’ظرفِ تنگنائے غزل‘‘ اُس سیلِ بلا کو سمیٹنے سے عاجز ہے جو اس کی فکر اور ذہن میں ہمہ وقت کروٹیں لیتا رہتا ہے سو
؎کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لیے
لیکن ان سب باتوں کے ساتھ یہ امر اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ جہاں غزل کے امکانات اور اس کی سحر کاری اور جادو آفرینی کہکشاں در کہکشاں پھیلتی چلی جا رہی ہے وہاں ہر دور میں غزل کہنے والوں نے ایسے ایسے رنگ اور پیرائے باندھے اور ایجاد کیے ہیں کہ غزل ہر امتحان سے نہ صرف کامیاب نکلی ہے بلکہ اس کے حسن کی نئی سے نئی جہات بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔
غزل کی اس قدر مضبوط کلاسیکی روایت اور موجود تخلیقی عمل اور امکانات سے پُر صورتِ حال میں کسی بھی غزل گو شاعر کے لئے ایسا نام حاصل کرنا جو ایک حوالہ بن جائے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ میں اپنے آپ کو اس میدان کی پہلی صف کا آدمی نہیں سمجھتا کہ غزل گو شاعروں کی پہلی صف میں داخل ہونے کے لئے جس غیر معمولی صلاحیت کی ضرورت ہے وہ مجھے اپنی غزل میں نظر نہیں آتی۔ ناصر کاظمی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب وہ کوئی غزل کہہ لیتے ہیں تو ّتصور میں میرـؔ و غالبؔ کو سامنے بٹھا کر اُن کو سناتے ہیں اور پھر ان کے اشارئہ چشم و ابرو یا داد کے کلمات کی روشنی میں اُس غزل کا مقام متعین کرتے ہیں۔ جب ناصر ؔ جیسے عمدہ اور باکمال شاعر کا یہ حال تھا تو ہم جیسے لوگوں کو تو کوئی دعویٰ کرتے وقت دس بار سوچنا چاہیے۔ (یہ اور بات ہے کہ بہت سے احباب اپنے مقام کے تعیّن میں خود میرؔ و غالبؔ کو بھی کہیں میلوں پیچھے چھوڑ جاتے ہیں) جہاں تک میرا تعلق ہے۔ میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ اُردو غزل کے اکابرین کے ساتھ ساتھ اپنے سینئر ہم عصروں اور اپنے سے بعد لکھنا شروع کرنے والوں سے بھی اس شعبدہ ساز صنف کے ِنت نئے اسرار و رموز اور پیرایوں کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کروں تاکہ جو باتیں میں بزبانِ غزل کہنا اور کرنا چاہتا ہوں اُن کا رشتہ اس کی عظیم اور زندہ روایت سے قائم اور ُ جڑا رہے۔
مجھے خوشی ہے کہ نظموں کے ساتھ ساتھ میری غزلوں کے قارئین کا بھی ایک خاصا بڑا حلقہ قائم ہو گیا ہے میرے لئے اتنی ہی پذیرائی بہت ہے کہ بڑے لوگوں کے گروپ فوٹو میں جگہ مل جانا بھی اپنی جگہ پر ایک عزت اور افتخار کی بات ہوتی ہے۔
بعد کی تین کتابوں کے بارے میں
میرے اب تک کے شائع شدہ تمام شعری مجموعوں میں شامل غزلوں کے کلیات ’’ہم اُس کے ہیںـ‘‘ کا جو ایڈیشن اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں تین نئے مجموعوں یعنی ’’ساحلوں کی ہوا‘‘، ’’پھر یوں ہوا‘‘ اور ’’یہیں کہیں‘‘ کی غزلیں بھی شامل ہیں جبکہ گذشتہ ایڈیشنوں میں ’’سحر آثار‘‘ تک کی غزلیں شامل تھیں۔ ترتیب کا انداز اب بھی وہی ہے یعنی غزلوں کو اُلٹی گنتی کے انداز میں درج کیا گیا ہے کہ تازہ ترین غزل پہلے نمبر پر اور سب سے پہلی غزل آخری نمبر پر ہے جس کا تعلق میرے دوسرے شعری مجموعے ’’ساتواں دَر‘‘ سے ہے کہ اوّلین مجموعے ’’برزخ‘‘ میں کوئی غزل شامل نہیں تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ قارئین میری ان غزلوں کو پسند کرتے اور انہیں اپنے دلوں سے قریب پاتے ہیں۔
کئی احباب نے مجھ سے اس کے نام کے بارے میں استفسار کیا ہے اور اس کے انتخاب کی وجہ اور معنویت جاننا چاہی ہے تو یہ وضاحت کرتا چلوں کہ یہ عنوان پیر و مرشد مرزا غالب کے ایک شعر سے مستعار لیا گیا ہے وہ شعر سن لیجئے سوالات کا جواب اس کے اندر ہی موجود ہے۔
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’’اناالبحر‘‘
ہم اُس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
’’ہم اُس کے ہیں‘‘ کا جو ایڈیشن اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اسے فی الوقت مکمل ترین ایڈیشن کہا جاسکتا ہے کہ اب اس میں ’’یہیں کہیں‘‘ کے بعد شائع ہونے والے تین مجموعوں ’’نزدیک‘‘ اور ’’شام سرائے‘‘ اور’’باتیں کرتے دن‘‘ کی غزلیں بھی شامل کردی گئی ہیں جو حسب ترتیب آغاز میں درج کی جارہی ہیں۔ اس ایڈیشن کا دوسرا اور بہت اہم اختصاص یہ ہے کہ اب یہ سنگِ میل پبلی کیشنز کے زیراہتمام میرے تمام تر شعری مجموعوں کے اُس سیٹ (Set) کے حصے کے طور پر شائع ہورہا ہے جو اپنی آب و تاب اور پیش کش کے انداز کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے اور اس کا سارا کریڈٹ برادرم افضال احمد کو جاتا ہے جو اس شاندار اشاعتی ادارے کو نئی رفعتوں سے روشناس کرانے کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جو یقینا کتاب سے بڑھتی ہوئی دُوری کے اس دَور میں ایک طرح کے جہاد سے کم نہیں۔
امجد اسلام امجد ۶
؍جولائی،۲۰۱۶ء
Subject: PoetryLanguage: Urdu
Number of Pages: 568