ڈاکٹر عافیہ مقدمہ کا فیصلہ انصاف کا بہیمانہ قتل ہے۔ ناﺅم چومسکی
سیالکوٹ پاکستان میں جنم لینے والے داﺅد غزنوی کم عمری ہی سے سید غزنوی خانوادے کے وارث ثابت ہوئے جو افغانستان کے حکمران سیاسی طبقات میں ہوتا ہے۔انہوں نے ایل ایل بی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی اور اسی دوران برطانیہ کی یونیورسٹی آف لاءسے Solicitorکی تربیت لی۔
اُن کی زیرنظر کتاب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمہ کو سمجھنے کے لیے ایک جامع دستاویز ہے جس میں پہلی بار عافیہ کی جسمانی اور ذہنی صحت کو تفصیل سے زیربحث لایا گیا ہے کہ یہ ایشوز کس طرح اس مقدمے پر اثرانداز ہورہے ہیں۔یہ کتاب شاید ایک انتہائی جامع تحریر ہے جو اس انداز سے لکھی گئی ہے کہ قارئین اس کی حقانیت سے مکمل بہرور ہوسکیں اور پھر اپنی رائے کے زیر اثر اپنا حتمی فیصلہ صادر کر سکیں۔ داﺅد غزنوی نے اصلی سچائی کی تلاش میں کوئی بھی ممکنہ پہلو نہیں چھوڑا۔ ”عافیہ صدیقی، مقدمہ جو سنا نہیں گیا “ ایک قابلِ فکر سنجیدہ کوشش کی پہلی کڑی ہے جس کا مقصد عافیہ صدیقی کی الجھی ہوئی پُراسرار پہیلی کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ ایک عمدہ تصنیف ہے۔ داﺅد غزنوی نے ایک اہل وکیل کی حیثیت کی بنا پر قانونی دستاویزات اور دوسرے کلیدی ذرائع سے حاصل کردہ مواد کو یکجا کر کے پیش کیاہے۔ ”عافیہ صدیقی، مقدمہ جو سنا نہیں گیا“ میں ایک انوکھا اور معنی خیز امر یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کے جانبدارانہ یا غیر جانبدارانہ نقطہ نظر کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس ایک بے تکلف طور پر اس تمام مواد کو قارئین کو اس طرح پیش کی کیا گیا ہے جس سے قارئین اپنی ذاتی رائے کو مجمع کر کے نتیجہ اخذ کر سکیں۔ داﺅد غزنوی صاحب کی اس تصنیف نے ایک ایسا افضل کام کیا ہے جس کو کافی عرصہ سے نظر انداز کیا جارہا تھا۔ اور اس حکایت کے تانے بانے نے بہت سے اہم اور آتش خیز معاملات سے پردہ اٹھایا ہے۔
No. of Pages | 224 |